سوات (اے بی این نیوز) گزشتہ دنوں52 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد دریا کے کنارے قائم تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن طاقتوروں کے دباؤ کے باعث روک دیا۔
دریائے سوات کے کنارےجہاں عام شہریوں کی تعمیرات تو بلاجھجک گرا دیں مگر بااثر شخصیات کی باری آنے پر کارروائی روک دی۔ حکام کی دوغلی پالیسی پر عوامی حلقوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی
فضاگٹ اور بائی پاس کے علاقوں میں تجاوزات کے خلاف آپریشن پیر کو دوسرے روز بھی جاری رہا، جہاں ضلعی انتظامیہ نے پچیس سے زائد ہوٹلز اور دیگر غیرقانونی تعمیرات گرا دیں۔
تاہم، جب وفاقی وزیر امیر مقام کے ملکیتی ہوٹل کی باری آئی تو کارروائی پر بریک لگ گیا۔ذرائع کے مطابق ہوٹل کی دیوار کا کچھ حصہ تو گرادیا گیا، لیکن ہوٹل انتظامیہ کی مداخلت اور قانونی دستاویزات دکھانے پر آپریشن معطل کر دیا گیا۔
چار گھنٹے تک آپریشن رکا رہا، اور مختلف شخصیات این او سی اور اسٹے آرڈرز دکھاتے رہے۔ میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد انتظامیہ دوبارہ حرکت میں آئی، لیکن مکمل کارروائی نہ ہو سکی۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر قانون صرف غریبوں کے لیے ہے تو یہ انصاف نہیں، بلکہ مذاق ہے۔
شہریوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا سوات میں قانون صرف ان کیلئے لاگو ہوتا ہے جن کے پاس اقتدار یا تعلقات نہیں؟ضلعی انتظامیہ کے مطابق دریا کے کنارے ڈی مارکیشن کا عمل شروع کیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں غیرقانونی تعمیرات روکی جا سکیں، تاہم موجودہ صورتحال نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا پاکستان میں قانون سب کے لیے برابر ہے؟
ترکیہ : گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کیخلاف ہنگامے پھوٹ پڑے،2 گستاخ کارٹونسٹ گرفتار