اسلام آباد ( اے بی این نیوز )اسلام آ با د ہا ئیکورٹ میں ججز تبادلوں کیخلاف ملک بھر کے وکلا سراپا احتجا ج ، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں عدالتی بائیکاٹ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں 80 فیصد سے زائد کیسز میں وکلا پیش نہیں ہوئے ۔ لا افسران سرکاری وکلا اور درخواست گزار خود عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔ صدراسلام آ با د با ر نعیم علی گجر نے کہا جو کچھ اسلام آ با د ہا ئیکورٹ کے سا تھ ہو اوہ دیگر عدا لتوں کے ساتھ ہو سکتا ہے ۔ قبل ازیں چیف جسٹس پاکستان نے ججز ٹرانسفر کو خوش آئند اور آئین کے تحت قرار دیدیا۔ پریس ایسوسی ایشن کی حلف برداری کی تقریب میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا اسلام آباد وفاق کی علامت ہے۔ وفاق پورے ملک کا ہے۔ آرٹیکل 200 کے تحت ججز کا ٹرانسفر اچھا اقدام ہے۔ دیگر صوبوں سے مزید ججز بھی آنے چاہئیں۔ ججز کے ٹرانسفر کے معاملے کو مکس نہ کیا جائے۔
ججز کی تعیناتی اور ٹرانسفر دونوں الگ معاملے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ آنیوالے کو تعینات نہیں کیا۔ یہ پہلے سے ہی ہائیکورٹ کے جج ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں آئے ججز کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ بلوچی اور سندھی بولنے والے جج آئے۔ ججز کے تحفظات دور کرے کیلئے ان سےملاقاتیں کرتا ہوں ۔ یہ معاملہ بھی جلد ختم ہو جائے گا۔ جہاں تک سنیارٹی کا تعلق ہے یہ معاملہ میرے پاس آئے گا میں اسے دیکھ لوں گا ۔
مجھ سمیت سپریم کورٹ کا ہر جج آزاد اور بااختیار ہے۔ جو میرا دائرہ اختیار ہے بلا خوف و خطر استعمال کروں گا۔ جو آئینی مینڈیٹ مجھے ملا اسے دیکھ کر ہی فیصلے کرتا ہوں۔ جہاں ذرا سا بھی لگاکہ میرا کوئی انٹرسٹ ہے خود کواس معاملے سے فورا الگ کرلیتا ہوں ۔ ہمیں سپریم کورٹ میں مزید ججز کی ضرورت ہے۔ میں روزانہ40کیسز سن رہا ہوں۔ سارا لوڈ تین چار ججز پر پڑھ جاتا ہے۔ زیر التوا کیسز کا بیک لاگ ختم کرنا ہوگا۔
اعلا میے میں کہا گیا۔ سپریم کورٹ بار ہمیشہ قانون کی حکمرانی عدلیہ کی آزادی کیلئے کھڑی ہوئی ہے۔ ۔ سپریم کورٹ بار کی ایگزیکٹو کمیٹی سے سرکولیشن کے ذریعے ججز ٹرانسفرز پر رائے لی گئی۔ ۔ آئین کا ارٹیکل 200 بلکل واضح ہے۔ آرٹیکل 200 صدر مملکت کو ججز ٹرانسفر کی اجازت دیتا ہے۔ ۔ ججز کی ٹرانسفرز نئی تقرری نہیں ہوتی۔ ٹرانسفر ہونے والے ججز کی سنیارٹی برقرار رہے گی۔
مزید پڑھیں :شہباز شریف وحمزہ کیخلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس میں فیصلہ محفوظ