اسلام آباد ( اے بی این نیوز )190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں عمران خان کا 342 کا بیان سامنے آگیا۔ عمران خان نے 79 سوالات کے جوابات گزشتہ روز جمع کرائے تھے ۔ بھٹو ریفرنس میں سپریم کورٹ نے فئیر ٹرائل نا ہونے کی نشاندہی کی۔
میرا کیس بھی اس طرح چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ استغاثہ کے گواہ کے مطابق اکاؤنٹ ہولڈر کی ہدایت پر سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کی ۔ ریاست کو کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ رقم ریاست کی نہیں تھی ۔
استغاثہ کے گواہ نے بیان دیا القادر یونیورسٹی کے مالی معاملات میں میرا کوئی لینا دینا نہیں۔ ریکارڈ کے مطابق شہزاد اکبر،ضیا المصطفی 6 نومبر 2019 کو پاکستان میں تھے۔ استغاثہ 6نومبر 2019 کو ہی این سی اے کے ساتھ کانفیڈنشل ڈیڈ کا دعویٰ کر رہا ہے۔
نواز شریف، آصف زرداری کا اے آریو کا ریکارڈ نیب نے ضائع کردیا۔ شہباز شریف ، قاضی فائز عیسیٰ کا اے آر یو کا ریکارڈ نیب نے ضائع کر دیا ۔ مریم نواز،اسحاق ڈار کا اے آر یو کا ریکارڈ بھی نیب نے ضائع کر دیا ۔
پرویزخٹک کو 9 مئی کیسز سے فری کرکے میرے خلاف گواہ بنایا گیا ۔ پرویز خٹک نے بھی کابینہ اجلاس میں کوئی اختلافی نوٹ نہیں لکھا تھا ۔ نیب نے 2020 کی ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ میں یہ انکوائری بند کردی تھی ۔
چیئرمین نیب آفتاب سلطان بھی انکوائری دوبارہ کھولنے پرمتفق نہیں تھے ۔ انکوائری افسر یاسر رحمان کے مطابق بھی کیس نیب آرڈیننس کے تحت نہیں بنتا ۔ مشرق بینک نے سپریم کورٹ کو بتایا یہ دو فریقین کا معاملہ تھا۔
مشرق بینک کے مطابق حکومت پاکستان اس میں پارٹی نہیں تھی ۔ پراسیکوشن کے گواہ کے مطابق میرے کسی رشتہ دار نے کوئی فائدہ نہیں لیا ۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کی مداخلت کی وجہ سے اکاؤنٹ میں رقم منتقلی کا پراسس ہو۔
استغاثہ کے گواہ اور تفتیشی افسر نے غیر قانونی طور پر کانفیڈنشل ڈیٹا تک رسائی لی۔ 458 کنال زمین نا مجھے نا میرے کسی فیملی ممبر کو ٹرانسفر ہوئی ۔ ٹرسٹ بننے سے پہلےزلفی بخاری کے نام تھی پھر القادر ٹرسٹ کے نام ٹرانسفر ہوئی۔
بطور وزیراعظم القادر ٹرسٹ کی ڈونیشن لینے کا نا کوئی گواہ نا کوئی ثبوت ہے۔ غیر قانونی مالی فائدہ لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ 190 ملین پاؤنڈ یوکے اور پاکستان منتقلی کے حوالے سے کوئی سہولت نہیں دی ۔ کابینہ نے منظوری دی ،کابینہ کے فیصلے کو نیب میں تحفظ بھی حاصل ہے ۔
مزید پڑھیں :ژوب میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی،15خوارج ہلاک