اسلام آباد (اے بی این نیوز ) معروف قانون دان اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ہم حالات سے ماضی سے کچھ بھی نہیں سیکھتےیہ سیاسی جماعتیں ایسی غلطیاں کرتی ہیں کہ خود ان کے سامنے آتی ہیں یہ ہمارا ایک طریقہ کار بن گیا ہے۔ کسی کی سہولت کاری کے ساتھ اگر ہم نے حکومت تبدیل کر دی اور حکومت میں ہمارا کوئی مخالف آگیا تو اس کو ایسے قوانین ملیں گے کہ اس کی عدلیہ جو ہے کمزور ہے تو پھر یہاں ہماری کوئی دادرسی نہیں ہوگی یہ ایک بالکل تحریر شدہ اصول ہے ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اے بی این نیوز کے پروگرام سوال سے آگے میں گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایسے قوانین سے ماضی میں جنرل ضیاء الحق نے جنرل مشرف نے فائدہ اٹھایا اور انہوں نے بھی عدلیہ کو کمزور کیا پھر آنے والوں کی بھی ایسی ہی مثالیں ملتی ہیں سجاد علی شاہ نے تمام تر اختیارات ہمارے خلاف استعمال کیے وہ ہمارا اتحادی تھا ہم نے سر پر بٹھایا لیکن تمام تر اختیارات ہمارے خلاف استعمال کیے گئے۔
فاروق لغازی کو جب با اختیار بنا دیا گیا تو پھر آپ دیکھ لیں کہ انہوں نے بھی ایسا ہی کیا اور انہوں نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کیا آپ کو یاد ہوگا کہ وہ بے نظیر حکومت کی جانب سے بنائے گئے صدر مملکت تھے یہی سب کچھ ہوتا رہا ہے اب اس سارے آئینی اور قانونی کھیل میں صرف ایک شخص تھا وہ ہے آصف علی زرداری وہ ایسا حکومت کا سربراہ ایا ہے کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ بھی ایسا نہیں کیا کہ آصف علی زرداری نے تمام اپنے تمام تر اختیارات پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو دے دیئے۔ یہ ایک بہت بڑی مثال موجود ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ آصف علی زرداری نے بطور صدر مملکت نے اپنے پانچ سال سکون سے گزارے ۔
حالانکہ ان کے خلاف میموگیٹ کی سازش ہوئی پھر ایک دفعہ تو یوں لگتا تھا کہ حکومت کو گرا کر ہی چھوڑا جائے گا ان کے خلاف اس وقت کے اسٹیبلشمنٹ بھی تھی اور بھی ادارے ان کے خلاف تھے جو ڈیشری بھی ان کے خلاف تھی افتخار محمد چوہدری بھی ان کے سخت خلاف تھے بہت سارے فیصلے انہوں نے ان کے خلاف بھی دیئے، ہر فیصلے میں جوپیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہوتا اس کو وہ اڑا دیتے تھے اسی طرح بے نظیر بھٹو کو نسیم حسن شاہ سےواسطہ پڑ گیا اور صدر اسحاق خان جو صدر مملکت تھے ان کے حوالے سے بھی ساری قوم جانتی ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ کا تجربہ حکومت کے لیے بہت کامیاب رہا اب جو چیف جسٹس یحیی آفریدی آئے ہیں انہیں بھی محسوس ہوا ہے کہ جو معاملات ہوئے ہیں انہوں نے آتے ہی قاضی فائا عیسیٰ کے جوفیصلےتھے انہیں سب سے ایڈریس کیا۔اب اگر حکومت یہ سوچتی ہے کہ وہ 27 ویں ترمیم لے آئے گی تو اس سے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے اس ترمیم کے لانے سے ایک ہی بات ہو سکتی ہے کہ آپ ججوں کی تعداد بڑھا دے تو بینچز بنانے والی باڈی کے لیے سہولت پیدا ہو جائے گی کہ آپ کے پاس سہولت کی زیادہ چوائس پیدا ہو جائے گی اگر اپ کے اپنے ہی منتخب کیے ہوئے ججز ا جاتے ہیں تو پھر اپ اس چیز کو جتنا مرضی کر لیں لیکن فائدہ نہیں ہم جتنی مرضی اس میں اضافہ کر لیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا حکومت کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کی خود مختاری اور اس کی آزادی کو محفوظ بنائے
اور اس کا تحفظ یقینی بنایا جائے اعتزاز احسن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لوگ یہ حکومت سے پوچھیں گے کہ بے روزگاری ،بجلی کے مسائل اور اس مرتبہ بدقسمتی سے گندم کا بھی شارٹ فال ہے حکومت کو اس کا جواب دینا ہوگا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ صاحبہ اس جانب توجہ دیں بجائے اس کے کہ وہ ایک جانب لگے ہوں کہ فتنے کو ختم کرنا ہے بدقسمتی سے ہمارے یہاں جو فتنہ ہوتا بھی ہے لیکن جب آپ اپوزیشن میں چلے جاتے ہیں تو آپ نے اس کو بہت زیادہ پاپولر کر دیا ہوتاہے آپ کے خلاف باقاعدہ ایک تحریک بن گئی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بالکل کلیئر ہو گیا ہے کہ اس وقت جو نون کی حکومت ہے وہ گھبرائی ہوئی ہے کہ وہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ منصور علی شاہ جو ہیں وہ آگے آئیں ماضی میں آپ دیکھیں کہ منصور علی شاہ نے پی ٹی ائی اور پیپلزپارٹی کے خلاف بھی فیصلے دیے وہ اس وقت منظور نظر تھے حکومت میں بھی ایک تفریق سامنے آئی ہے پیپلز پارٹی جو ہے وہ حکومت کا حصہ نہیں وہ اتحادی ہے انہوں نے کہا کہ جو آپ کریں گے صرف اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے آئین میں اپ تبدیلیاں لائیں گے قوانین بنائیں گے وہ سب آپ کے خلاف استعمال ہوں گے جب آپ حکومت میں نہیں رہیں گے سارے قوانین جو کسی کے لیے بنائے جاتے ہیں وہ اپنے لیے ہی خلاف ہوتے ہیں
’’ زہر گھولا تھا جو کسی کے لیے اعتزاز وہ اپ کو ہی پینا ہے‘‘
سپریم کورٹ کے حوالے سے مزید گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا جو آغاز ہے وہ انتہائی خوش آئند ہے میں تو چار پانچ سال سے برملا کہتا رہا ہوں کہ ہماری عدلیہ اور خاص کر سپریم کورٹ میں بہت بڑی دراڑ پڑی ہوئی ہے میرے خیال میں اس کو ختم کرنے کے لیے جو سب سے پہلا قدم اٹھایا ہے وہ چیف جسٹس یحیی آفریدی نے اٹھایا ہے یہ انتہائی خوش ائند ہے اس سے عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد بڑھے گا اور عدلیہ پر دباؤ بھی کم ہوگا کیونکہ اگر آپ کوئی جانبدارانہ فیصلہ دے رہے ہیں تو اس پر اپنے آپ پر بھی دباؤ ا ٓجاتا ہے یحیی آفریدی چیف جسٹس جو ہیں وہ انتہائی میچور ہیں وہ دیگر ججوں سے عمر میں کم ہیں لیکن وہ انتہائی میچیو رڈ دکھا ئی دے رہے ہیں امید ہے کہ اب ان کے تحت عدلیہ ایک نئی ڈائریکشن لے گی ماہر قانون اعتزاز احسن نے مزید کہا کہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ ہی روکنا مقصود تھا کیونکہ اس سلسلے میں وزیراعظم نے وزیر دفاع نے اور وزیراعلی ٰپنجاب نے رانا ثنا اللہ نے جو ہے زبان استعمال کی ہے انہوں نےاس طرح سے ظاہر کیا ہے کہ بالکل ان کا ٹارگٹ ہی یہ تھا کہ منصور علی شاہ اور منیب صاحب بھی کسی بینچ میں نہ بیٹھے کہ یعنی کہ یہ جسٹس صاحبان اگر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو یہ کسی کمیشن میں کسی بینچ میں نہ بیٹھے اور انہیں بے اختیار کرنے کی یقینی طور پر کوشش بھی کی گئی
26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وکلا ایک نئی کمک بن کر شاید نکل ائیں لیکن اس کے لیے کسی جج کی بھی قربانی دینا ضرور ہوتا ہے کیونکہ پی ٹی آئی جو ہے اپنے ورکرز کو بہت تھکا رہی ہے کیونکہ اگر انہوں نے آئے روز ڈی چوک پہنچنا ہے تو ریاست نے ان کو روکنا ہے لیکن یہ اپنے ووٹرز کی طاقت کو صحیح استعمال نہیں کر رہے ہیں اپنے ووٹرز کو اس حد تک لے کر جانا چاہیے کہ جہاں تک ان کا سانس نہ پھولے انہیں چاہیے کہ اس دوران چھوٹی چھوٹی سیاسی سرگرمیاں کریں کہ سیمینار کریں کہ روز یہ ا ٓجاتا ہے کہ جو ڈی چوک نہیں پہنچے گا وہ غدار ہے میرے خیال میں پی ٹی آئی اپنے ورکرز کو جو ہے صحیح طرح نہیں رہنمائی کر رہی ہے ۔
لطیف کھوسہ جو کہہ رہے ہیں کہ نومبر میں عمران خان رہا ہو رہے ہیں تو ہو سکتا ہے ان کو معلوم ہو میرے علم میں تو نہیں لیکن سوائے ماضی کو دیکھ کر ہی کوئی بات کی جا سکتی ہے لیکن مستقبل کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی جا سکتی لیکن پاکستان میں ہر چیز ممکن ہے کوئی چیز بھی ناممکن نہیں ۔
آئندہ کیا ہونا ہے کل کیا ہونا ہے شاید کوئی ایسا ہی معاملہ ہو جائے کہ حکومت یکدم جو ہے وہ اتنی پاور فل ہو جائے کہ وہ عمران خان کو اور زیادہ کمزور کر سکے پاکستان کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے کسی بھی چیز کی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کسی صورت بھی دباؤ میں نہیں آئیں گے میں ان کو گزشتہ 60 سال سے جانتا ہوں آصف علی زرداری بھی کسی دباؤ میں نہیں آئے تھے ان کو آٹھ نو سال جیل میں رکھا گیا ان کو محدود حد تک رکھا گیا اتنے عرصے میں تو پاکستان کا کوئی سیاست دان بھی اتنا پابند نہیں رہا یا جیل میں نہیں رہا عمران خان زیادہ سخت ہیں آپ نے جو اس کو پانچ دن اندھیرے میں رکھا ۔
اب ستم ظریفی یہ ہے کہ نون لیگ اور وزیر داخلہ نے عمران خان کی ملاقات بند کردیہے کر دیں لیکن آپ نے ہر قیدی جو اڈیالہ جیل میں ہے یہاں پر تین سے چار ہزار قیدی ہیں ان کے لیے بھی مشکلات پیدا کر دی ہیں ان کے بھی سیل بند کیے گئے ہیں ان کو ٹہلایا جاتا ہے لیکن انہیں بھی پابند کر دیا گیا ہے جب کسی نے جیل کے قوانین کے خلاف ورزی کی ہو تو پھر اس کی ملاقات پر پابندی لگائی جاتی ہے آخر آپ کب تک یہ کریں گے آخر کار انصاف تو ہوگا۔
سپریم کورٹ کے انتخابات کے حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کہ اس کے نتائج جو ہیں سپریم کورٹ پر بھی اثر ڈالیں گے لیکن آپ یہ دیکھیں کہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ فتح کیسے حاصل کی جا رہی ہے سب کو معلوم ہے کہ وہ جو ہیں متنازع ہیں اور حکومت میں بیٹھے ہو ئے ہیں، یہ تمام چیزیں لوگ جانتے ہیں لوگ اس حوالے سے بھی جانتے ہیں اور وہ انہیں امید ہوتی ہے کہ کون سا گروپ جو ہے وہ فتح حاصل کر سکے گا