اہم خبریں

کوشش کی گئی ہے اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کے تقرر کے عمل کو شفاف بنایا جائے ،وزیر قانون

اسلام آباد ( اے بی این نیوز   ) وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ 19ویں آئینی ترمیم عجلت میں منظور کی گئی جس کے نتیجے میں آئین کا توازن بگڑ گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے 14 سالوں سے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری ہمیشہ تنقید کا نشانہ رہی ہے۔ اس تنقید کے بعد کوشش کی گئی ہے کہ ججز کی تقرری کا عمل شفاف بنایا جائے۔

آرٹیکل 175 اے میں ترامیم

وزیر قانون نے انکشاف کیا کہ آئین کے آرٹیکل 175 اے میں متعدد ترامیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ججز کی تقرری میں شفافیت لائی جا سکے۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان چیف جسٹس کی سربراہی میں آٹھ ارکان پر مشتمل ہوگا، جس میں چار سینئر ججز اور چار پارلیمان کے ارکان شامل ہوں گے۔

18ویں آئینی ترمیم کی بحالی کی کوشش

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 18ویں آئینی ترمیم کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیر قانون کے مطابق، کابینہ نے جے یو آئی کی ترامیم کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور آئینی بینچز کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو سونپا جائے گا۔

19ویں ترمیم سے آئین کے توازن پر اثرات

اعظم نذیر تارڑ نے زور دیا کہ 19ویں ترمیم نے آئین کے توازن کو متاثر کیا ہے اور اس کے بعد سیاسی مشاورت کئی ہفتوں پر مشتمل رہی ہے۔ اس دوران چھبیسویں آئینی ترمیم میں چیف جسٹس کی مدت تین سال مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

جوڈیشل کمیشن میں ججز کی کارکردگی کی جانچ کا حق

وفاقی کابینہ نے وزیر اعظم کی طرف سے چیف جسٹس کی تعیناتی کے متعلق اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کا فیصلہ بھی منظور کر لیا ہے۔ جوڈیشل کمیشن ججز کی کارکردگی کو جانچنے کا بھی حق رکھتا ہے اور جو ججز کام نہیں کرتے یا جن کی کارکردگی درست نہیں ہوتی، انہیں رپورٹ کیا جائے گا۔

آئینی عدالت اور بینچز کی تشکیل

وزیر قانون نے واضح کیا کہ آئینی بینچز کا تقرر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بےنظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے آئینی عدالت کے قیام کے لیے جدوجہد کی تھی۔ اب اپوزیشن کی تجویز پر آئینی عدالت کی بجائے آئینی بینچز کے قیام پر اتفاق کیا گیا ہے۔

184 کا استعمال اور وزیر اعظموں کی برطرفی

انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت سے لے کر آئینی بینچ تک کی تاریخ میں کئی وزرائے اعظم کو گھر بھیجا گیا۔ تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے، اب چیف جسٹس کے تقرر اور سوموٹو جیسے معاملات کو نئی ترامیم کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔

ماحولیات کا چیلنج اور 9 اے آرٹیکل کا اضافہ

وزیر قانون نے ماحولیات کے چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نیا آرٹیکل 9 اے شامل کیا گیا ہے، جس کے تحت ہر شہری کو صاف ستھرے ماحول میں رہنے کا حق دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں : وفاقی کابینہ نے حکومتی اتحادی جماعتوں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی کا 26 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ منظور کر لیا

متعلقہ خبریں