اہم خبریں

ہر ڈکٹیٹر کہتا ہے تمام کرپٹ ارکان اسمبلی اور ایوان کو ختم کردوں گا، سب لوگ ملٹری رجیم جوائن کر لیتے ہیں، چیف جسٹس

اسلام آباد (  اے بی این نیوز     )ہر ڈکٹیٹر کہتا ہے تمام کرپٹ ارکان اسمبلی اور ایوان کو ختم کردوں گا۔ سب لوگ ملٹری رجیم جوائن کر لیتے ہیں۔ پھر جمہوریت کا راگ شروع ہو جاتا۔ جمہوریت اس لیے ڈی ریل ہوتی رہی کہ یہ عدالت غلط اقدامات کی توثیق کرتی رہی۔ چیف جسٹس کے آرٹیکل 63اے نظرثانی کیس میں ریما رکس ۔

کہا کوئی آئین یا سزائے موت سے ناخوش ہوسکتا ہے لیکن عملدرآمد کے سب پابند ہیں۔ کیا کوئی جج حلف اٹھا کر کہہ سکتا ہے آئین کی اس شق سے خوش نہیں ہوں۔ بیرسٹر علی ظفر نے بطور عدالتی معاون دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ آئین میں دیئے گئے حق زندگی کے اصول کو کافی آگے بڑھا چکی ہے۔ کسی بنیادی حق کے اصول کو آگے بڑھانا آئین دوبارہ تحریر کرنا نہیں ہوتا۔

آئین میں سیاسی جماعت بنانے کا حق۔ یہ نہیں لکھا جماعت الیکشن بھی لڑ سکتی ہے۔ عدالتوں نے تشریح کرکے سیاسی جماعتوں کو الیکشن کا اہل قرار دیا۔ بعد میں اس حوالے سے قانون سازی بھی ہوئی لیکن عدالتی تشریح پہلے تھی۔ عدالت کی اس تشریح کو آئین دوبارہ تحریرکرنا نہیں کہاگیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریما رکس دیئے ووٹ کرنے کا حق تو رکن پارلیمنٹ کا ہے۔

یہ حق سیاسی جماعت کا کیسے کہا جاسکتاہے۔ چیف جسٹس نے کہا اس حساب سے تو پارٹی کیخلاف ووٹ دینا خودکش حملہ ہے۔ ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا اور نشست سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اگر کوئی پارٹی پالیسی سے متفق نہ ہو تو مستعفی ہوسکتا ہے۔ تاریخ یہ ہے کہ مارشل لاء لگے تو سب ربڑ سٹیمپ بن جاتے ہیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا پی ٹی آئی نے اپنے دور میں ووٹ نہ گنے جانے کے حوالے سے قانون سازی کیوں نہ کی؟ تحریک عدم اعتماد آنے والی تھی۔ اس وقت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کردیا گیا۔ اس وقت پارلیمنٹ کی جگہ سپریم کورٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔

مزید پڑھیں :اسلام آباد، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین کی برطرفی شروع

متعلقہ خبریں