اسلام آ باد (اے بی این نیوز)وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ سپیکر کے چیمبر میں اپوزیشن ارکان آتے جاتے ہیں۔ سپیکر کے چیمبر کا ہمیشہ نیوٹرل رول ہوتا ہے۔ بلوچستان کے مسئلے پر اپوزیشن کا ابھی تک مؤقف واضح نہیں۔
نوازشریف نے واضح الفا ظ میں کہا کہ ملکی مسائل پر سب کو بیٹھنا چاہیے۔پی ٹی آئی میں فیصلے صرف بانی پی ٹی آئی کرتے ہیں۔ فیصلوں میں دیگر پارٹی رہنماؤں کا کوئی خاص رول نظر نہیں آتا۔
وزیراعظم نے اسمبلی کے فلور پر مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ ملکی مسائل کا حل نکالنا ہے تو رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔
موجودہ حالات میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے رویے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ پی ٹی آئی کے رویے میں جہاں ضرورت ہے وہاں تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ملٹری ٹرائل کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی کے پاس کوئی ٹھوس خبر ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے۔
بانی پی ٹی آئی کے ملٹری ٹرائل کا فیصلہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کریں ۔ حکومت کا ملٹری ٹرائل کا ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ جیل میں موبائل استعمال کرنے کی خبر افواہ بھی ہوسکتی ہے۔ موبائل کے استعمال سے متعلق کوئی رائے نہیں دے سکتا۔
کرکٹ ٹیم کی ناکامی کا سارا ملبہ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی پر ہی جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان حالات کو سمجھنے والے سیاستدان ہیں۔ جلسے کی اجازت دینا انتظامیہ کا مسئلہ ہے۔ جلسے کے حوالے سے قواعد وضوابط انتظامیہ نے ہی طے کرنے ہیں۔ اڈیالا جیل کا صبح 7بجے تالا آئی جی اسلام آباد نے کھلوایا ہوگا۔ وہ اے بی این نیوز کے پروگرام سوال سے آ گے میں گفتگو کر رہے تھے،انہوں نے کہا کہ
نو مئی کے حوالے سے نواز شریف نے جو بات کی ہے اس میں انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سب کو بیٹھ کر ملک کے درپیش مسائل حل کرنے چاہیے۔ وزیراعظم نے فلور آف دا ہاؤس پہ بڑے واضح بات کی کہ آئیں بیٹھیں ہم ڈائیلاگ پر یقین رکھتے ہیں اس وقت قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن موجود تھی۔
جہاں تبدیلی نظر آنا چاہیے وہاں نظر نہیں ارہی ہے۔ محمود اچکزائی بڑے کلیئر ہیں لیکن ان سے آگے والی بات کلیئر نہیں ہے۔ محمود چکزائی کو جو مینڈیٹ دیا ہے بس وہ اسی طرح کا مینڈیٹ ہے۔
پی ٹی ائی کے رویوں میں کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں ارہی ہے۔
ملٹری کورٹ کے حوالے سے عمران خان کی جانب سے جو ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی ہے اس پر مجھے بڑا شک ہو رہا ہے۔ عمران خان کے پاس باقاعدہ کوئی ایسا ذمہ دارانہ وجہ ہے جس کے تحت انہوں نے یہ پٹیشن دائر کی ہے۔
شاید عمران خان سمجھتے ہیں کہ کچھ ایسے معاملات سامنے آئے تو اور جنرل ( ر )فیض ہیں وہ وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی سب سے عمران خان کی پٹیشن کی وجہ سے کافی شک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔
عمران خان کاملٹری کورٹ میں ٹرائل ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جب شواہد سامنے ائیں گے تب ہی کچھ کہا جا سکتا ہے اگر کوئی سیریس ہی سامنے اتی ہے تو اس پر فیصلہ کیا جائے گا جس طرح کہ نو مئی کے واقعات ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں اگر وہاں پر بھی آرمی ایکٹ لاگو نہیں ہوتا تو پھر اس ایکٹ کو رکھا کیوں ہے اگر ایکٹ اتنا ہی غیر متعلقہ ہے تو پھر اسے رکھنے کا کیا فائدہ ہے ایکٹ موجود ہے تو پھر اس کے تحت کاروائی ہوگی۔
ملٹری کورٹ میں کیس چلنے کے حوالے سے فیصلہ ہم نے نہیں متعلقہ عدالت نے کرنا ہے۔ ٹاپ سٹی کے معاملات جب ہو رہے تھے اس وقت ہماری حکومت تھی وہ یہ کام جنرل ریٹائرڈ فیض ہی کر رہے تھے اور ان کے بھائی بھی اس میںشامل تھے۔