اسلام آباد ( اے بی این نیوز ) پی ٹی آئی کے راہنما لطیف کھوسہ نے کہا کہ نے حکومت اپنےلیےگڑھاکھودنےجارہی ہے۔ اگریہ چیف جسٹس بندیال والی سپریم کورٹ سمجھ رہے ہیں توان کی غلط فہمی ہے۔ سپریم کورٹ کے11ججزنےکہاپی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے۔
الیکشن کمیشن نےسپریم کورٹ کےفیصلےکی غلط تشریح کی۔ کیا الیکشن کمیشن کےفیصلےکی سزاجمہورکودی جاسکتی ہے۔ ہماری اپیل اصل کارروائی کاتسلسل ہے۔ ججزنےثابت کردیاکہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے۔
کیا دنیاکی کوئی قانون ساز اسمبلی فراڈپرمہرلگاکراسےقانون بناسکتی ہے؟میرےخیال میں11ججزکےفیصلےکوزیربحث لانابھی توہین ہے۔ سپریم کورٹ اپنےفیصلےپرعملدرآمدکرائےگی۔ سپریم کورٹ ریاست کوبچائےگی اورریاست عوام ہوتی ہے۔
آئین کےتحت پارلیمنٹ بنتی ہے قانون سازی اورترامیم آئین کےتابع ہو تی ہیں ۔ اس ملک میں رہنےوالی عوام کوکیاسمندرمیں غرق کردیں؟سپریم کورٹ کےججزبڑے دبنگ اپنےفیصلے پرعمل کراناجانتےہیں۔
یہ حکومت فاشسٹ ہے(ن)لیگ ہمیشہ عدالتوں پرچڑھ دوڑتی ہے۔ ن لیگ نےچیف جسٹس سجاد علی شاہ کومعزول کراکرسپریم کورٹ کودولخت کیاتھا۔ الیکشن ترامیم ایکٹ پارلیمنٹ پرقابض ٹولےکیلئےواٹرلوہوگا۔
الیکشن ترامیم ایکٹ2024سپریم کورٹ کی تضحیک ہے۔ یہ جبری طورپرعوام کوغلام بنائےہوئےہیں دیکھیں بنگلہ دیش میں کیاہوا۔ بنگلہ دیش معاشی طورپرمضبوط ہے صرف ایک ایشوپرعوام باہرنکلی۔
خالدہ ضیاکوقیدرکھ کراس کی پارٹی پرپابندی لگارکھی تھی۔ عوام کوحقوق نہ دیے جائیں انہیں دباکررکھاجائےتوبنگلہ دیش جیسےحالات ہوتےہیں۔ وہ اے بی این نیوز کے پروگرام سوال سے آگے میں گفتگو کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ
مہنگائی انتہاپرہےعوام بجلی کےبل نہیں دےپارہے۔ راناثنااللہ ساری سیٹیں ہمارےہوئےہیں۔ ان کی بات نہیں کرناچاہتا۔ جوکہتاتھاوو ٹ کوعزت دووہ آج ووٹ کوذلت دےرہاہے۔
صوابی کےجلسےمیں حماداظہرنے جوکہااس کی100فیصدحمایت کرتاہوں۔ عوام بانی پی ٹی آئی کی رہائی کےبارے میں ہم سےپوچھتےہیں۔
ہمیں پوچھاجاتاہےبانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئےآپ کیاکررہےہیں۔ پنجاب بھرمیں ہم نےجلسوں کیلئےانتظامیہ کودرخواستیں دےرکھی ہیں۔ جلسےکی جوتاریخ دیتےہیں اس کومنسوخ نہ کیاجائے۔
ہم جوبھی جلسےکریں گے وہ قانون کےمطابق کریں گے۔ کیاقانون وآئین صرف ہمارے لیےرہ گیا ہے۔ باقی سب کوآزادی ہے۔ کسی سیاسی جماعت پرکوئی پابندی نہیں ہےایسے رول آف لا کوہم نہیں مانتے۔
عوام ہماراگریبان پکڑتی ہے وہ کہتی ہے ہم نےآپ کو ووٹ دیاہےکیا کررہےہیں۔ کارکن پوچھتےہیں ہم جلسےکیوں منسوخ کرتےہیں؟ تجزیہ نگار صحافی تجزیہ کار ااطہر کاظمی نے کہابطور معاشرہ ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داری لینی پڑے گی یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم سیاست دانوں کو سنگل اؤٹ کر دیں،ڈیشری کو کر دیں یا اسٹیبلشمنٹ کو کر دیں سبکا اپنا اپنا کردار ہے ۔
ہمیں بنگلہ دیش جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے ہماری جو 76 سالہ تاریخ ہے وہ ایسی شاندار ہے اگر ہم نے کچھ سیکھنا ہوتا تو ہم اس سے سیکھ جاتے ہیں دیکھیں ۔ سہروردی صاحب کو جب اتارا گیا ان کو بھی لندن بھجوا دیا گیا کہا گیا کہ یہ وطن دشمن ہے اس کے بعد آپ تسلسل دیکھ لیںبھٹو صاحب کو دیکھ لیں ۔ نواز شریف صاحب کی حکومت کا خاتمہ دیکھ لیں ۔
ہر چیز میں آپ نے دیکھا کہ یہاں پہ بہت کچھ ہوتا رہا لیکن ہم نے سیکھا یا نہیں سیکھا ۔ یہ بہت بڑا سوال ہے مجھے نہیں لگتا کہ ہم نے سیکھا ہے جہاں تک بنگلہ دیش ہے بنگلہ دیش کا بھی یہ ہے کہ ان کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ وہ کسی اور ملک کے قریب ہو گئے تھے۔ لیکن عوام میں بڑا غصہ تھا اصل ایشو یہ تھا کہ وہ اپنی عوام سے دور ہو گئے ہیں۔
ہمارے سیاست دانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے چاہے پی ٹی ائی والے ہوں چاہے ان کے مخالفین ہو ںآپ جب اقتدار میں آتے ہیں اپ کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرا ختم ہو جائے یہ نہیں ہو سکتا ہمیں سب کو مل کر یہ مسائل حل کرنے ہو نگے۔ قاضی فائز عیسی صاحب خود کہہ رہے ہیں کہ میری ججمنٹ کی غلط تشریح ہو ئی ہے۔
یہ جو سسٹم ہے اس کی گارنٹی زرداری صاحب ہیں شہباز شریف صاحب اگر آج بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ زرداری صاحب کے ووٹوں کی وجہ سے بیٹھے ہیں اگر آج زرداری صاحب سائڈ پہ ہو جائیں شہباز حکومت ایک دن نہیں چل سکتی۔
عاصمہ شیرازی نے کہا ہےجو دو ججوں نے اختلافی نوٹ لکھا ہے ان کے اختلاف نوٹ میں بہت وزن اس کو آپ پڑھیں بات دلیل کی ہے۔ یہ بات جو بات اطہر بھائی کررہے ہیں تو بالکل صحیح بات ہے ۔
منتخب وزیراعظم کو ہینگ کر دیتے ہیں آپ وزرا اعظم کو فارغ کر دیتے ہیں ایک منٹ کی سزا سنا کے گھر بھیج دیتے ہیں تو یہ ہوتا رہا ہے اس ملک میں ہمیں کانسٹیٹیوشن کیلئے اور پارلیمنٹری ڈیموکریسی کے لیے چلنا ہو گا۔
بنگلہ دیش میں سوشل میڈیا بند کیا گیا۔ صحافیوں کو بند کیا گیا ان کے خلاف کیسز بنائے گئے اسوشل میڈیا کی آواز بند کی گئی پھر آخر عوام نے پھٹنا ہی تھا۔
مزید پڑھیں :بیرسٹر گوہر کی طرف سے شیر افضل مروت کو عمران خان سے ملاقات کرنے کی دعوت