اسلام آباد ( اے بی این نیوز )کے پی کے حکومت بالکل ناکام ہوچکی ہے ۔ یبرپختونخوا کے کھیلوں کے میدان ویران ہیں۔ بھرتیاں رشوت کے عوض کی جارہی ہیں اداروں میں اقراباپروری جاری ہے۔ پارا چنار میں اصل مسئلہ زمین کی تقسیم کا ہے۔
صوبائی حکومت کی ناکامی کی وجہ سے پارا چنارا میں مسائل پیدا ہوئے۔ افغانستان کے بارڈر سے بھی مداخلت ہورہی ہے۔ ہمیں میڈیا سے پتہ چلا کہ آپریشن عزم استحکام شروع ہوا ہے۔
اعلامیہ جب آیا آپ نے واک آؤٹ نہیں کیا اس کا مطلب کہ آپ راضی ہیں۔
ہمارا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے کہ صوبے میں امن ہو۔ وزیراعلیٰ کے پی کی ہمیشہ محسن نقوی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ مرکز کے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کیے جاتے ہیں نہ کہ سٹیج پر بڑھکیں مارنے سے ۔
آج کے پی حکومت کے پاس تنخواہیں دینے کیلئے پیسے بھی نہیں۔
کے پی کوزرداری کے دور میں سب سے زیادہ پیسے ملے ہیں۔ کے پی حکومت نے کوئی پراجیکٹ نہیں لیا یہ صرف ڈائیلاگ بازی میں مصروف ہیں۔ سی ایم ہاؤس میں کمرہ مل جائے اینکسی مل جائے کھانا پینا مفت مل جائے تو کیوں نہیں آئیں گے۔
امن وامان کے حوالے سے تمام سیاسی پارٹیوں کو اکٹھا بیٹھنا چاہیے۔ بجلی کے مسائل کے بارے میں کے پی حکومت بات کرے میں ان کی حمایت کروں گابجلی 24گھنٹے فراہم کی جاسکتی ہے۔ ادائیگی پر بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔
یہ میری پرپوزل ہے صوبائی حکومت کو اس حوالے سے سپورٹ کروں گا۔ نہ لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی نہ ہی تربیلا کا سوئچ آف ہوا۔ صوابی جلسے میں ڈی سی اور پٹواری لوگ لے کر آئے تھے کھانا بھی دیا۔
جلسے فیصلے نہیں کرتے ۔ جو اعلان کیے ہیں وہ دیکھیں گے۔ وہ اے بی این نیوز کے پروگرام ڈبیٹ ایٹ ایٹ میں گفتگو کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ
وفاقی حکومت اور وزیر داخلہ بیٹھے ہوئے ہیں میں نے کیا کرنا ہے۔ جب وقت آئے گا تو اس حوالے سے میں خود بات کروں گا۔ اگست یا ستمبر میں پی ٹی آئی کا جلسہ اسلام آباد آئے گا تو پھر دیکھ لیں گے۔
اکتوبر ابھی آیا بھی نہیں اور فائرنگ شروع کردی گئی ۔
اتحادی اس حوالے سے نہیں کہ کابینہ کے ممبر نہیں باقی سب میں اتحادی ہیں۔ الیکشن پر تحفظات بارے سیاستدانوں نے فیصلے کرنے ہیں۔ کے پی حکومت مال غنیمنت مولانا فضل الرحمان کوو اپس کرے۔
کے پی کا الیکشن صرف حلال ہے باقی سب حرام ہیں۔
مولانا فضل الرحمان چن چن کر بدلے لے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی روزانہ مولانا صاحب کے در پر حاضر ی دے رہی ہے۔ کل تک محمود اچکزئی کے بارے میں کیا کہتے تھے آج ان ہی سے رابطے کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی والے جرات کریں اور مولانا فضل الرحمان سے معافی مانگیں۔ مولانا فضل الرحمان میرے مخالف ہیں سیاسی تنقید کروں گا لیکن ذاتیات پر نہیں جاؤں گا۔ پی ٹی آئی والے جب مولانا فضل الرحمان کے سٹیج پر کھڑے ہوں گے تو کیا سماں ہوگا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں مہنگائی کے اعتبار سے بڑھانی چاہئیں۔
ان تمام مسائل کا حل مذاکرات ہے ۔ لوگوں کے مسائل کا حل سیاستدانوں کے پاس ہوتا ہے اور ہم نے نکالنا ہے ۔ لوگ ٹاک شوز اور گالم گلوچ والی سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔ عوام چاہتی ہے کہ ان کے درپیش مسائل کو حل کیا جائے۔
یہ چاہتے ہیں بانی پی ٹی آئی کو این آر او دے دو اوروہ جیل سے باہر آجائے۔ سیاسی کارکنوں کو فی الفور رہا کردینا چاہیے ۔ جن پر مقدمات ہیں وہ ان کا سامنا کریں۔ مقدمات کا فیصلہ ہم نے نہیں عدالتوں نے کرنا ہے۔
پس پردہ میں کیا باتیں کرتے ہیں اور سامنے کیا باتیں کرتے ہیں۔ یہ این آر او چاہتے ہیں۔ الیکشن میں عوام آپ کو مینڈیٹ دیتی ہے تو آپ آئیں اور حکومت کریں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے علیحدہ علیحدہ پارٹی منشور ہیں۔
الیکشن بل کے حوالے پارلیمنٹ نے جو قانون سازی کی وہ سمجھتی ہے درست ہے۔ ہم پنجاب کے وزیراعلیٰ مریم نواز کے ترجمان تو نہیں ہیں۔ چیف جسٹس کی ایکسٹیشن کے بارے میں پارٹی اور وقت فیصلہ کرے گا۔
مزید پڑھیں :عوامی نمائندگی ایکٹ تو اب ختم ہوچکا الیکشن ایکٹ آچکا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ