اسلام آباد(اے بی این نیوز)سینیٹرمشاہد حسین سید نے ن لیگ کی حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے کی مخالف کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔
انہوں نے ایک ٹوئٹمیںکہاکہ 1975میں پیپلز پارٹی کی طرف سے نیشنل عوامی پارٹی(این اے پی) پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ 1971میں جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ پر پابندی لگا ئی تھی۔
آج ن لیگ کی حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ آج بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیاپرانی غلطیاں دہرائی جا رہی ہیں، جس کا مطلب ہے، سیاسی استحکام کو الوداع، سرمایہ کاری کو الوداع، اقتصادی بحالی کو الوداع! کہا جا رہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کی روگردانی کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کس پارٹی پر کب کب پابندی عائد کی گئی ۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ 1954 میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اس پر یہ الزام تھا کہ اس نے راولپنڈی سازش کیس میں اس پارٹی نے ملوث ہو کر ملک دُشمنی کی اور پھر ملک بھر میں جماعت کے ورکرز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ الزام عائد کیا گیا کہ وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے سازش کی۔ اور اسے راولپنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا تھا۔ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ سجاد ظہیر کو بھارت واپس بھجوا دیا گیا تھا ۔
نیشنل عوامی پارٹی پر دو مرتبہ پابندی لگی ۔ پہلی مرتبہ 1971 میں یحییٰ خان اور پھر 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری دور میں پابندی لگائی گئی۔ اس جماعت پر بھی ملک دشمن سرگرمیوں کا الزام عائد کیا گیا ۔ حیات خان شیر پاؤ کے قتل کا الزام تھا۔ 8 فروری 1975 کو پشاور یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران ہلاک ہوئے ۔ دھماکے کا الزام نیپ پر عائد کیا گیا تھا۔
اگلے ہی روز وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں دو بلوں کی منظوری حاصل کی ایک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی گرفتاری کا استثنٰی ختم کر دیا گیا۔ دوسرے بل میں پولیٹکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کر کے حکومت کو قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے والی جماعتوں کو خلاف قانون قرار دینے کا اختیار بھی دے دیا گیا۔
اس قانون سازی کے اگلے روز 10 فروری 1975 کو نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ حالیہ تاریخ میں پاپی ٹی آئی کی حکومت نے اپریل 2021 میں تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) پر انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت پابندی عائد کر دی تھی۔
سات ماہ بعد نومبر 2021 میں ایک ٹی ایل پی کے ساتھ ایک ’خفیہ معاہدے‘ اور حکومتِ پنجاب کی درخواست پر یہ پابندی ختم کر دی گئی۔ پابندی کا شکار ہونے والی دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں میں سپاہ صحابہ پاکستان، سپاہ محمد پاکستان، تحریکِ جعفریہ پاکستان، ملتِ اسلامیہ پاکستان بھی شامل۔ ان میں سے بعض جماعتیں قائدین اور نام بدل کر آج بھی سیاست کر رہی ہیں لیکن پابندیوں کے باعث سیاست میں ان کا کردار محدود ہوگیا ۔
مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ نے صنم جاوید کو گھر بھیجنے کا حکم دے دیا















