اسلام آباد (اے بی این نیوز )نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کی درخواست منظور کرتے ہوئے وفاقی اور پنجاب حکومت کو ویڈیو لنک کے انتظامات کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ حکمنامہ کے مطابق خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کے علاوہ تمام صوبوں اور وفاق نے انٹرا کورٹ اپیلوں کی حمایت کی۔گزشتہ حکمنامہ میں بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ وکیل عدالت میں موقف پیش کرنے کا کہا گیا۔
بانی پی ٹی آئی نے خود دلائل دینے کا تحریری موقف اختیار کیا۔ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل میں ویڈیو لنک کی سہولت فراہم کرے۔
مزید پڑھیں :بانی پی ٹی آئی جب چاہیں جیل سےباہرنکل سکتےہیں، رؤف حسن
مرکزی کیس میں ایڈووکیٹ خواجہ حارث بطور وکیل درخواست گزار دلائل دیتے رہے۔ اگر ایڈووکیٹ خواجہ حارث اپنی خدمات عوض ادائیگی کی توقع کریں تو بل پیش کر دیں۔بل کی ادائیگی کا معاملہ عدالت طے کرے گی۔ اب تک کتنے کیسز میں تحقیقات کیں، نیب سے تفصیلات طلب۔ ایسے کیسز کی کتنی تعداد ہے جن میں نیب کورٹ کی سزائیں ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ نے برقرار رکھیں۔ نیب نے اب تک کتنی رقوم کی ریکوری کی، تفصیلات طلب۔نیب کی ریکوری کی گئی رقوم کس بنک اکاؤنٹ میں رکھی گئیں، تفصیلات طلب۔ کیا ریکوری شدہ رقوم پر نیب نے بھی کوئی حصہ لیا؟ تفصیلات طلب۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان چاہیں تو آئندہ سماعت پر بذریعہ ویڈیو لنک دلائل دے سکتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان چاہیں تو آئندہ سماعت پر بذریعہ ویڈیو لنک دلائل دے سکتے ہیں۔ دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نیب عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ اس کیس میں جو دلائل وفاقی حکومت کے ہوں گے ہم ان ہی کو اپنائیں گے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل
مزید پڑھیں :پاکستان کی اہم سیاسی ودیگر شخصیات کی دبئی میں 11ارب ڈالر جائیدادیں منظر عام پر آگئیں
خیبرپختونخوا نے کہا کہ ہم نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلےکی حمایت کرتے ہیں۔ اٹارنی جنرل کا دوران سماعت کہنا تھا ہم پارلیمنٹ کی نیب ترامیم کی حمایت کرتے ہیں جبکہ پنجاب حکومت کے وکیل کا کہنا تھا ہم وفاقی حکومت کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بانی پی ٹی آئی ذاتی حیثیت سے پیش ہونا چاہتے تھے، بانی پی ٹی آئی ذاتی حیثیت سے پیش ہونا چاہیں تواقدامات کیے جانے چاہئیں جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہم نے کہا تھا بانی پی ٹی آئی بطور وکیل نمائندگی چاہتے ہیں تو جیل حکام اقدامات کریں۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا عدالتی کارروائی کو صرف قانونی نکات تک محدود رکھیں گے جبکہ اٹارنی جنرل نے کہا مرکزی کیس میں خواجہ حارث کے ذریعے دلائل دیے گئے۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا بانی پی ٹی آئی فریق ہیں انہیں سنا جانا
مزید پڑھیں :سفاری ٹرین کا دلکش سفر،سیاح ہو جائیں تیار،ٹورسٹ کی موجاں ای موجاں
چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے یہ معاملہ نیب کی پولیٹیکل انجینئرنگ میں ملوث ہونے سے متعلق ہے، اگر بانی پی ٹی آئی بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونا چاہیں ہو سکتے ہیں، بانی پی ٹی آئی پیش ہونا چاہیں تو ہم کیسے روک سکتے ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو یا وکیل کے ذریعے نمائندگی دی جا سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ کیس ذاتی حقوق کا نہیں، معاملہ قانون کی شقوں میں ترمیم کا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کیا تمام مقدمات میں بھی ایسے ہی سائلین کو نمائندگی ملنی چاہیے، کیس ترامیم کے درست ہونے یا غلط ہونے سے متعلق ہے۔فاروق ایچ نائیک انفرادی درخواست گزار کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوئے اور کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ کیا مرکزی اپیلیں قابل سماعت بھی تھیں، یا نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا بانی پی ٹی آئی چاہیں تو آئندہ سماعت پر بذریعہ ویڈیو لنک دلائل دے سکتے ہیں، ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دینے کا بندوبست کیا جائے، کتنے وقت تک ویڈیو لنک کا بندوبست ہو جائے گا۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ وفاقی حکومت کی ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، وفاقی حکومت متاثرہ فریق ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا وفاقی حکومت کیسے متاثرہ فریق ہے؟ متاثرہ فرد ہی اپیل کرسکتا ہے۔چیف جسٹس پاکستان
مزید پڑھیں :ایویسینا میڈیکل کالج طالبہ کی المناک موت،اعلیٰ سطح پر تحقیقات
نے کہا کہ یہ معاملہ قانون میں ترمیم کی شقوں کا ہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا بے نظیر کیس کے تحت یہ اپیل تو قابل سماعت ہی نہیں، زیادہ تر ترامیم نیب آرڈیننس سے لی گئی ہیں، ہائیکورٹ کے فیصلوں کے تناظر میں بھی ترامیم کی گئی ہیں، عدالت متاثرہ فریق کی تعریف کر چکی ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا صدر کو آرڈیننس جاری کرنے کے لیے وجوہات لکھنی چاہئیں۔مخدوم علی خان نے صدارتی آرڈیننس جاری کرنے سے متعلق آئینی شقوں کو پڑھا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا اگر صدر مطمئن ہو تو آرڈیننس جاری کیا جاتا ہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا نیب کو پولیٹیکل انجینئرنگ
مزید پڑھیں :اسلام آباد ہائیکورٹ : وفاقی حکومت کو نان فائلرز کی سم بلاک کرنے سے روک دیا
کےلیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا حکومت نے وجوہات دینی ہے کہ آرڈیننس اس وجہ سے جاری کرنا ضروری ہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا بریگیڈیئر اسد منیر کا خود کشی کا نوٹ کافی ہے، یہ بنیادی انسانی حقوق کی بات ہے، سپریم کورٹ کا 11رکنی لارجر بینچ ایسی درخواستوں کو سن چکا ہے۔وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ معطل تھا جب نیب ترامیم کے خلاف درخواست سنی گئی، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا درخواست میں کوئی ایسی ترمیم چیلنج کی گئی جو آئین کے خلاف ہو؟جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا نیب بتائے پچھلے 10 سال میں کتنے سیاستدانوں کے خلاف کیسز چلوائے اور پچھلے 10 سال میں کتنے سیاستدانوں کو قید کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ نیب نے تین سال ایک شخص کو جیل میں رکھا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگوں کے ساتھ
مزید پڑھیں :ارب پتی شادی انجام کو پہنچ گئی: میلنڈا گیٹس نے گیٹس فاؤنڈیشن سے استعفیٰ دیدیا
ظلم بھی بہت ہو رہا ہے، آپ نے مطمئن کرنا ہے کہ لوگوں پر اب تو ظلم نہیں ہو رہا۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا اٹارنی جنرل آپ نے یقینی بنانا ہے کہ ویڈیو لنک کام کرے۔چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا فیصلہ لکھواتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے نیب سے پوچھا کہ وہ اپیلوں کی حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت، نیب کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اپیلوں کی حمایت کرتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا ہم بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہیں، عدالت بانی پی ٹی آئی سے کل تک تحریری معروضات بھی طلب کر سکتی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا ایک اپیل وفاق کی ہے اور دوسری اپیل پرائیویٹ ہے۔
مزید پڑھیں :آمدہ بجٹ،عوام کے گرد شکنجہ تیار،گاڑی ما لکان کیلئے پریشان کن خبر