اسلام آباد(نیوزڈیسک) چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو جج مداخلت دیکھ کر کچھ نہ کرے اسے جج نہیں ہونا چاہیے، وہ فوری گھر بیٹھ جائے۔سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے عدلیہ میں مداخلت کے خط پر ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی۔
اٹارنی جنرل نے جواب جمع کرانے کیلئے کل تک کا وقت مانگ لیا۔جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا لکھا ہوا اضافی نوٹ پڑھا کہ وفاقی حکومت ایجنسیاں کنٹرول کرتی ہے، وفاقی حکومت الزامات کا جواب دے، وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، ہائیکورٹ کے ججز نے نشاندہی کی کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے، وفاقی حکومت کی ذمہ داری وہ مطمئن کرے مداخلت نہیں۔
پاکستان بار کونسل کے وکیل نے دلائل دیئے کہ 6 ججز کے معاملے پر جوڈیشل تحقیقات چاہتے ہیں، ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2018/19 میں ہائی کورٹس کا سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کے مسائل پر خاموشی اختیار کرنا تھا، لگتا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے جو سفارشات مرتب کی ہیں وہ ہائیکورٹس کے جواب کی روشنی میں نہیں کیں، 76سال سے اس ملک میں جھوٹ بولا جا رہا ہے، ہم خوفزدہ کیوں ہیں، سچ کیوں نہیں بولتے، ہمیں عدلیہ میں مداخلت کو تسلیم کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے اس پر کہا کہ میں اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتا، اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے، کوئی ایسا کہے تو اسے یہاں بیٹھنے کے بجائے گھر چلے جانا چاہیے، اگر کوئی جج کچھ نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے، ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے۔
جسٹس اطہر نے کہا کہ صرف میں نہیں اٹارنی جنرل صاحب نے بھی یہ بات کہی ہے، حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے، تمام ہائی کورٹس نے چھ ججز سے بھی زیادہ سنگین جوابات جمع کرائے ہیں، ایک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ مداخلت آئین کیساتھ کھلواڑ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس سے رکی نہ کسی اور چیز سے، ججز نے ہائی لائٹ کیا کہ مداخلت ایک جاری سلسلہ اور رجحان ہے، آپ بتائیں ایسا کیا ڈر پیدا کیا جائے کہ یہ سلسلہ رکے؟ اٹارنی جنرل خود مان چکے ہیں 2018 میں کیا کچھ ہو رہا تھا، 2018 اور 2019 میں ہائیکورٹ کے آزاد ججز کیلئے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کی ملی بھگت تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ عوام کو حقیقت بتانے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے ہمیں ملی بھگت کا اعتراف کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے جوابا کہا اگر ملی بھگت ہے تو پھر بینچ میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں۔