اسلام آباد ( اے بی این نیوز )ن لیگ کے راہنما رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ اسحاق ڈار کو نائب وزیر اعظم بنانے کا فائدہ نہیں تو نقصان بھی نہیں،پارٹی میں اور حکومت میں سوچ تھی کہ اسحاق ڈار کو عزت ملنی چاہیے،اس سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسحاق ڈار کو عہدہ دیکر عزت دی گئی،باتیں بنتی رہتی ہیں کہ اسحاق ڈار وزیر خزانہ کیوں نہیں ،وزیر خارجہ کیوں ہیں،ماحول ایسا بن جاتا ہے اس لئے سیاسی طور پر ایسے عہدے دیے جاتے ہیں ،پی ڈی ایم حکومت کے وقت بھی اسحاق ڈار کو ہی وزیر خزانہ بننا تھا،مفتاح اسماعیل نے ٹیم ممبر کے طور پر اسحاق ڈار کے ساتھ کام کیا تھا،مفتاح اسماعیل کا یہ الزام کہ اسحاق ڈار نے ان کو وزارت خزانہ سے ہٹایا غلط ہے،مفتاح وزیر خزانہ بنے تو وہ ٹیم ممبر کی طرح نہیں آزاد انہ طور کام کر رہے تھے،مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں پر اسحاق ڈار نے تنقید کی توآگے جا کر ماحول تبدیل ہو،اسحاق ڈار
مزید پڑھیں :مذاکرات کے بغیر سیاسی استحکام قائم ہونا مشکل ہے، ناصر بٹ
کو وزیر خزانہ بنانا وزیراعظم کی صوابدید تھی وہ ہی وضاحت دے سکتے ہیں،کس سے کیا کام لینا ہے یہ وزیر اعظم کی صوابدید ہے ،انہوں نے وزیر خارجہ بنایا،اسحاق ڈار کونائب وزیر اعظم بنانے میں نواز شریف کی مشاورت ضرور ہو گی،بیرون ملک جن اداروں کے ساتھ معاملات چل رہے ہیں وہاں اسحاق ڈار پر کچھ مسئلہ تھا،نواز شریف کو پارٹی صدر بنانے کا فیصلہ ان کی مرضی سے نہیں درخواست کی گئی ہے،میر ی نظر میں بڑے فیصلے کرنے سے پہلے نوازشریف سے مشاورت کی جاتی ہے،پارٹی صدر بنانے کا فیصلہ نواز شریف کی مرضی سے ہی ہوگا،جنرل کونسل کا اجلاس بلا رہے ہیں قرارداد کےذریعے نوازشریف پارٹی صدر
مزید پڑھیں :’’ کیا ‘‘ کی کار لاکھوں روپے سستی،مارکیٹ میں دھوم مچ گئی
بن جائیں،نواز شریف چین سے واپس آتے ہیں تو پھر پارٹی صدر بنانے کا فیصلہ ہو جائے گا،احسن اقبال کی خواہش ہے کہ سعد رفیق کو سیکرٹری جنرل ن لیگ بنایا جائے،بیانیہ ضروری نہیں کہ مزاحمتی ہی ہو،ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے کردار میں واپس چلی جائے،سعد رفیق نے پہلے بھی ذمہ داری انجام دی ہے اس لیے دوبارہ بنانے کا سوچا گیا،ہم بھی چاہتے ہیں ملک میں سول بالا دستی ہو ،کسی سے محاذ آرائی سے نہیں،اسٹیبلشمنٹ کا جوایک پروجیکٹ تھا گزشتہ 10سال اسی میں گزر گئے،اسٹیبلشمنٹ نے ایک شخص کوپالا،اچھی حکومت کو چلتا کیا،ایک پروجیکٹ مسلط کیا،ایسے شخص سے پتہ نہیں
اسٹیبلشمنٹ کوکیا امید ہے جوان کے ہی گلے پڑ گیا،اب اس پروجیکٹ کووائنڈ اپ کرنے کا معاملہ چل رہا ہے،چاہتے ہیں اس پروجیکٹ کو وائنڈ اپ کیا جائے،جواس پروجیکٹ کی لڑائی چل رہی ہے ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں،مولانا فضل الرحمان اسمبلی کے ممبر ہیں ،2018کی اسمبلی کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ووٹ خرید کر لوگ آئے،2013کی اسمبلی کے بارے میں بھی لوگ کیا کچھ کہتے رہے،فضل الرحمان نے جو باتیں کی ہر پارلیمنٹ کے بارے میں ہوتی رہیں،سیاستدان کے آپس میں بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے،اگر اس نے سبق سیکھ لیا ہے تو باقی سب لوگ بیٹھنے کو تیار
ہیں،اگر اس نے سبق سیکھ لیا ہے تو فضل الرحمان ،اختر مینگل سمیت سب بیٹھنے کو تیار ہیں ،موجودہ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ ہم سیاستدان اکٹھے ہو کر ملک کو سنبھالیں،سیاستدان پہلے بھی اور آج بھی معاملے کو کسی سمت لگنے نہیں دے رہے،بانی پی ٹی آئی نے ہمیں ختم کرنے کیلئے سابق اسٹیبلشمنٹ کو کہا کہ میرا ساتھ دیں،سابق اسٹیبلشمنٹ نے ساتھ نہیں دیا تو اس شخص نے ان کے ساتھ ہی لڑائی شروع کردی ،جب وہ ہمیں حقیقت تسلیم نہیں کرتا اور ہمیں ختم کرنے کیلئے لگا ہوا ہے تو ہم اسے کیسے تسلیم کریں،موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو جانتا ہوں ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے،اسٹیبلشمنٹ نے پارلیمنٹ میں بٹھایا ہے تو نہ بیٹھیں،مراعات لینے والے اعتراض بھی کررہے ہیں تو پھر پارلیمنٹ میں نہ بیٹھیں،سیاستدان کا ایک دوسرے کو ختم کرنے کے عمل کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے،2018میں بانی پی ٹی آئی اپوزیشن کے
ساتھ بیٹھ جاتے تو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کیا کرلیتی،بانی پی ٹی آئی نے میرے خلاف کیس بنایا کیا پھانسی چڑھ جاتا؟،بانی پی ٹی آئی ہماری جان کے پیچھے پڑ گیا تھا تو پھر کیاکرتے،ہم نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا،سابق اسٹیبلشمنٹ کو کہا اپنے کردار سے پیچھے ہٹیں،گوجرانوالہ جلسے میں بانی پی ٹی آئی نے2لوگوں کا نام لے کرکہا انہوں نے یہ کچھ کیا ہے،جب وہ لوگ پیچھے ہٹے تو بانی پی ٹی آئی ان کے گلے پڑ گیا،
ہم کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ نے نیوٹرل رہنا ہے ،بانی پی ٹی آئی کہتا ہے نیوٹرل نہیں رہنا،باقی جماعتیں بات کرنے کیلئے بیٹھ جائیں گی،بانی پی ٹی آئی دوڑ جائیں گے،ہم پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کرنے
کیلئے ،ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہیں،پی ٹی آئی والے بولے بات چیت کیلئے تیار ہیں ہم خود چلے جائیں گے۔پی ٹی آئی کہہ دے رابطہ کریں ہم خود ان کے پاس چلے جائیں گے،پی ٹی آئی جب ہمیں جیلوں میں ڈال رہی تھی اس وقت بھی بیٹھنے کیلئے تیار تھے ،،پلوامہ واقعے پر بریفنگ میں تمام پارٹی سربراہ نے شرکت کی ،بانی پی ٹی آئی نہیں آئے۔جسٹس شوکت صدیقی کا کسی نے ساتھ نہیں دیا تھا۔
ججز کے خط کے معاملے پرحاصل حصول کچھ نہیں ہوگا،خفیہ اداروں کا کام ایسے نہیں ہوتا کہ وہ سامنے آ کر نہیں کہتے کہ ہم یہ کررہے ہیں،کیمرے کس نے لگائے کیسے لگے اس کا کوئی حل نہیں نکلے گا کسی کو سز ا نہیں ملے گی۔رولز آف دی گیمز سیاستدانوں کو طے کرنے ہیں،میرے خلاف جو منشیات کا کیس تھا وہ تو سزائے موت تھی۔