فیصل آباد (اے بی این نیوز)زرعی ماہرین نے کہا ہے کہ زراعت میں کیمیکل کیڑے مار ادویات کا زیادہ استعمال نہ صرف کئی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے بلک اس کے ساتھ ساتھ ماحولیا تی آلودگی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں ہماری زرعی کھیپ کو مسترد کروانے کا بھی باعث ہے جس کے لئے حشرا ت کا مربوط طریقہ انسداد اپنانا ہو گا ان خیالات کا اظہارمقررین نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں منعقدہ بین الاقوامی ورکشاپ برائے بین الاقوامی پریکسٹس ٹدی دل کا کنٹرول اور حشرا ت کا مربوط طریقہ انسداد سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔سیمینار کا انعقاد شعبہ حشریات زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور CAB انٹرنیشنل کے اشتراک سے کیا گیا افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ پھلوں اور سبزیوں کو کیڑوں ،بیماریوں اور دیگر چیلنجزکا سامنا ہے جس کے نتیجے میں پیداواری لاگت زیادہ اور فی ایکڑ پیداوار کمہے۔ انہوں نے کہا کہ صحت مند اور خوراک سے محفوظ معاشرے کے لیے زراعت میں حشرات کا مربوط طریقہ انسداد کو اپنانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے شعبہ حشرات کو دورحاضر میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے مناسب نگرانی اور مضبوط وارننگ سسٹم کو یقینی بنانا ہوگا۔ADB انٹرنیشنل کنسلٹنٹ/IPM ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ ہنٹر نے کہا کہ زرعی کارکنوں اور صارفین کے لیے کیڑے مار ادویات سے منسلک صحت کے خطرات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہائی ویلیو مارکیٹ والے ممالک نے کیمیکل کیڑے مار ادویات کی پابندیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ برآمدات کو بین الاقوامی معیارات سے ہم آہنگ بنانے کیلئے جدید انسداد حشرات کا نظام رواج دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین 2019 میں درآمدی مصنوعات کے نمونے لیے گئے۔ 2019 کے دوران ٹیسٹ کیے گئے پاکستانی مصنوعات میں سے 20 فیصد میں زائد زرعی کھیپ کو کیمیکلز کے زیادہ استعمال کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا۔ کیمیائی کیڑے مار ادویات کے استعمال کو محدود کریں۔ انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل پر قابو پانے کے لیے فعال ردعمل اور باقاعدگی سے نگرانی کا لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ڈین فیکلٹی آف ایگریکلچر پروفیسر ڈاکٹر محمد سرور خاں نے کہا کہ ٹڈی دل ایک سنگین مسلہ ہے جس نے 2019 میں سندھ، بلوچستان اور پنجاب بڑے پیمانے پر متاثر ہوا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ورکشاپ دیگر ممالک کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے قومی سطح پر اس مسئلے کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔چیئر مین شعبہ انٹومالوجی پروفیسر ڈاکٹر محمد جلال عارف نے کہا کہ یونیورسٹی ،CABI اور ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن کے باہمی تعاون سے بائیو پیسٹی سائیڈز پالیسی ریگولیشن پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی دشمن کیڑے اور ماحول دوست کیڑے کی حکمت عملی کے تمام کوششیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحرائی ٹڈی دل کی نگرانی اور کنٹرول کے لیے ایک جامع قومی ایکشن پلان 2020-21 تیار کیا گیا اور کابینہ نے اس کی منظوری دی ۔ انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں کی قیادت میں یونیورسٹی ترقی کی نئی راہیں ہموار کر رہی ہے بون یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈینیئل نیوہوف نے کیڑے مار ادویات کی باقیات کی زیادہ سے زیادہ سطح اور مسئلہ کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں زیادہ کیڑے مار ادویات کے استعمال سے متعلق مخصوص مسائل میں قدرتی وسائل کی خرابی، اور تکنیکی ریگولیٹری سہولیات کا فقدان شامل ہیںڈائریکٹر آفس آف ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن ڈاکٹر جعفر جسکانی نے کہا کہ ہمیں کیڑے مار دوا کے بے جا استعمال سے اجتناب کرنا ہوگاتاکہ ہماری مصنوعات بین الاقوامی منڈی میں قابل قبول تصور کی جائیں۔ڈاکٹر شاہد مجید نے کہا کہ حشرا ت کا مربوط طریقہ انسدادایک ایسا عمل ہے جس کا استعمال آپ کیڑوں کے مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ ماحولیات کو لاحق خطرات کو کم کر سکتے ہیں۔















